September 12, 2014

Etebaar

میں نے اس سے کہا تھا کہ اعتبار صرف اپنی ذات پہ کرنا ہی بہتر ہے کیا خبر کسی دن اچانک تم دغا دو اعتبار کی عمارت مجھ پہ ہی گرا دو تب کیا ضروری ہے کہ اس ملبے تلے دب کے میں زندہ رہ جاؤں ؟ باقی عمر اسکی صفائی اور چکائی میں بسر کر دوں ؟
لیکن دل پہ کسی کا زور نہیں اس پہ تمہاری محبّت کا نقش بہت گہرا ہے جیسے پتھر پہ لکیر ہر بیرونی موسم سے بےنیاز
مجھے تم پہ اعتبار ہے ؟ ہے ؟ کہ نہیں ہے؟
آؤ آج میں اپنے آپ کو اس اندیشے اس تذ بذ ب سے نجات دوں اپنی توقعات کی زنجیر کو تمہاری کلائیوں سے کاٹ دوں تمہیں غیر مشروط محبّت کی پرواز دوں
بس ایک گزارش ہے اس آزادی کے عوض اپنی الفت کی زنجیر سے مجھے ہمیشہ کو اسیر کرلو میرے ہر گمشدہ خواب کو تم اک حسین تعبیر کر دو میرے حبیب میرے محبوب مجھے اپنے قریں اپنے اور قریب کر لو
© ATK





No comments:

Post a Comment