میں نے اس سے کہا تھا
کہ اعتبار صرف اپنی ذات
پہ کرنا ہی بہتر ہے
کیا خبر کسی دن
اچانک تم دغا دو
اعتبار کی عمارت
مجھ پہ ہی گرا دو
تب کیا ضروری ہے کہ
اس ملبے تلے دب کے
میں زندہ رہ جاؤں ؟
باقی عمر اسکی صفائی
اور چکائی میں بسر کر دوں ؟
لیکن دل پہ کسی کا زور نہیں
اس پہ تمہاری محبّت کا نقش
بہت گہرا ہے
جیسے پتھر پہ لکیر
ہر بیرونی موسم سے بےنیاز
مجھے تم پہ اعتبار ہے ؟
ہے ؟
کہ نہیں ہے؟
آؤ
آج میں اپنے آپ کو
اس اندیشے اس تذ بذ ب
سے نجات دوں
اپنی توقعات کی زنجیر کو
تمہاری کلائیوں سے کاٹ دوں
تمہیں غیر مشروط محبّت
کی پرواز دوں
بس ایک گزارش ہے
اس آزادی کے عوض
اپنی الفت کی زنجیر سے
مجھے ہمیشہ کو اسیر کرلو
میرے ہر گمشدہ خواب کو
تم اک حسین تعبیر کر دو
میرے حبیب میرے محبوب
مجھے اپنے قریں
اپنے اور قریب کر لو
© ATK

No comments:
Post a Comment